روزے کے آداب و سننن
Page 1 of 1
روزے کے آداب و سننن
روزے کے آداب اورسنن ۔
ان میں کچھ تو واجب اورکچھ مستحب ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ) صحیح بخاری ( 4 / 139 ) ۔
یہ کھانا بابرکت ہے ، اورسحری کھانے میں اہل کتاب کی مخالفت بھی پائي جاتی ہے ، اورپھر مومن کی سب سے بہترین سحری کھجوریں ہیں ۔ دیکھیں سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2345 ) صحیح الترغیب ( 1 / 448 ) ۔
افطاری میں جلدی کرنی چاہیے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائي موجود رہے گی ) صحیح بخاری ( 4 / 198 ) ۔
اسے حدیث میں بیان کی گئي اشیاء سے روزہ افطار کرنا چاہیے ، انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئي کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ) سنن ترمذی ( 3 / 79 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 922 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے بعد مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے :
( ذهب الظمأ ، وابتلت العروق ، وثبت الأجر إن شاء الله ) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئيں اورانشاء اللہ اجر ثابت ہوگيا ۔
سنن ابوداود ( 2 / 765 ) دار قطنی نے اسے حسن قرار دیا ہے دیکھیں سنن دار قطنی ( 2 / 185 ) ۔
بے ہودہ بات چيت اوراعمال سے اجتناب کرنا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم میں سے جب کوئي روزہ سے ہو تووہ گناہ کےکام نہ کرے ) رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوکوئي بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 ) ۔
لھذا روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرحرام کردہ چيز سے اجتناب کرے مثلا چغلی وغیبت اورفحش گوئي وجھوٹ وغیرہ سے پرہیز کرے کیونکہ ان پر عمل پیرا ہونے سے بعض اوقات اس کےروزے کا اجر ہی ضائع ہوجاتا ہے ۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 539 ) صحیح الترغیب ( 1 / 453 ) ۔
نیکیوں کوختم کرنے اوربرائيوں کو کھینچنے والی اشیاء میں فلمیں اورڈراموں اورکھیل کود میں وقت اوراسی طرح فارغ بیٹھے رہنے اوربرے اخلاق اوروقت ضائع کرنے والوں کے ساتھ راستوں اورگلی محلہ میں آوارہ گھومنا ، اورگاڑیوں سے کھیلنا ، راستوں اور فٹ پاتھوں پر بھیڑ کرنا ، یہ سب اشیاء نیکیوں کو ختم کرتی اوربرائي پیدا کرتی ہيں ۔
حتی کہ یہ ماہ مبارک جو تھجد اورقیام اللیل کا مہینہ تھا اکثر لوگ تو سارا دن سو کرگزار دیتے ہیں تا کہ بھوک وپیاس کا احساس نہ ہوسکے ، جس کی بنا پر باجماعت نمازيں ضائع ہوتی ہیں اوربعض اوقات تو نماز کے وقت میں بھی ادائيگي نہیں ہوتی ، پھر رات کو کھیل کود اورشھوات میں پڑے رہتےہیں ، اوربعض لوگ تورمضان کے آنے پر پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان کی لذتیں جاتی رہیں گی اورکچھ لوگ رمضان المبارک میں کفار ممالک میں چلے جاتے ہيں تا کہ تا کہ وہاں پر وہ کچھ کرسکیں جواپنے ملک میں کرنا مشکل ہے ! ۔
حتی کہ اب تو مساجد بھی منکرات سے خالی نہیں رہتیں بلکہ عورتیں نماز پڑھنے کے بہانے سے عطروخوشبو اورطرح طرح کی پرفیومز اسعتمال کرلے بے پردہ ہوکرنکلتی ہیں جس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے ، حتی کہ بیت اللہ بھی ان آفات سے خالی نظر نہیں آتا ۔
اورکچھ لوگوں نے تو رمضان المبارک مانگنے اورسوال کرنے کا سیزن بنا رکھا ہے حالانکہ وہ محتاج نہيں اور اس سے سوال کے لیے دست دراز کرنا صحیح نہيں ، اوربعض لوگ تو اس ماہ مبارک میں آتشبازي اورپٹاخے وغیرہ کے کھیل میں مشغول ہوتے ہيں ، اورکچھ منچلے تو بازاروں اورشاپنگ سینٹروں میں گھومتے اورتالیاں و سیٹیاں بجاتےنظر آتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اگر روزہ دار سے کوئي شخص لڑائي جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ ہو تو اسے یہ کہنا چاہیے میرا روزہ ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 ) ۔
اس حدیث میں ایک نصیحت تو خود روزہ دارکوہے اوردوسری اس سے لڑنے والے شخص کو کی گئي ہے ، لیکن اس دور میں اگربہت سے روزہ داروں کے اخلاق کو دیکھا جائے تو اس اخلاق فاضلہ کے خلاف ہی ان کے اخلاق ہوتے ہیں لھذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ۔
٭ روزہ میں علم ومال کی دولت ، اوربدن وعزت وشرف اوراخلاق کی دولت کو سخاوت کرکے لٹایا جاتا ہے ۔
صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے يادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زيادہ جود وسخا کرتے جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زيادہ خیروبھلائي کی جود وسخا کرنے والے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6 ) ۔
روزہ رکھنا اور دوسرے کو کھلانا اگرکسی میں یہ دونوں چیزيں جمع ہوں تویہ جنت میں داخل ہونے کا ایک سبب ہے ، جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے فرمان میں بیان کیا ہے :
( یقینا جنت میں ایسے کمرے ہیں ان کا اندرونی حصہ باہر سے ہی نظرآتا ہے ، اوراندر سے اس کا باہر والاحصہ نظر آتا ہے ، اللہ تعالی نے یہ کمرے کھانا کھلانے ، اوربات چيت میں نرم رویہ اختیاروالے ، روزہ دار، اور رات کوجب لوگو سوئے ہوں تو نماز پڑھنے والے کے لیےتیار کیے ہیں ) مسند احمد ( 5 / 343 ) صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ( 2137 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے کسی روزہ دارکوافطاری کروائی اسے بھی روزہ دارجیسا اجروثواب حاصل ہوگا ، اورروزہ دارکے اجروثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگي ) سنن ترمذی ( 3 / 171 ) صحیح الترغیب ( 1 / 451 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
افطاری کروانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا جائے ۔ دیکھیں الاختیارات الفقھيۃ صفحہ نمبر ( 109 ) ۔
بہت سے سلف صالحین رحمہ اللہ تعالی نےفقراء کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی افطاری فقراء ومساکین کو دے دی ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ، مالک بن دینا ، احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہيں ، بلکہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما تو یتیموں اورمسکینوں کے بغیرافطاری ہی نہيں کرتے تھے ۔
سحری کھانے کی حرص اوراس میں تاخیر کرنا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( سحری کیا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ) صحیح بخاری ( 4 / 139 ) ۔
یہ کھانا بابرکت ہے ، اورسحری کھانے میں اہل کتاب کی مخالفت بھی پائي جاتی ہے ، اورپھر مومن کی سب سے بہترین سحری کھجوریں ہیں ۔ دیکھیں سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2345 ) صحیح الترغیب ( 1 / 448 ) ۔
افطاری میں جلدی کرنی چاہیے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جب تک لوگ افطاری جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائي موجود رہے گی ) صحیح بخاری ( 4 / 198 ) ۔
اسے حدیث میں بیان کی گئي اشیاء سے روزہ افطار کرنا چاہیے ، انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے قبل چند رطب ( تازہ کھجور) سے افطاری کرتے اگر رطب نہ ہوتیں تو چند ایک پکی ہوئي کھجوریں کھا لیتے ، اوراگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ایک آدھ پانی کا گھونٹ پی کر افطار کرتے تھے ) سنن ترمذی ( 3 / 79 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 922 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطاری کے بعد مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب افطاری کرتے تویہ دعا پڑھا کرتے تھے :
( ذهب الظمأ ، وابتلت العروق ، وثبت الأجر إن شاء الله ) پیاس جاتی رہی اوررگیں تر ہوگئيں اورانشاء اللہ اجر ثابت ہوگيا ۔
سنن ابوداود ( 2 / 765 ) دار قطنی نے اسے حسن قرار دیا ہے دیکھیں سنن دار قطنی ( 2 / 185 ) ۔
بے ہودہ بات چيت اوراعمال سے اجتناب کرنا ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم میں سے جب کوئي روزہ سے ہو تووہ گناہ کےکام نہ کرے ) رفث معصیت وگناہ کوکہاجاتا ہے ۔
اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوکوئي بے ہودہ باتیں اوران پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کواس کے بھوکے اورپیاسے رہنے کی کوئي ضرورت نہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1903 ) ۔
لھذا روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہرحرام کردہ چيز سے اجتناب کرے مثلا چغلی وغیبت اورفحش گوئي وجھوٹ وغیرہ سے پرہیز کرے کیونکہ ان پر عمل پیرا ہونے سے بعض اوقات اس کےروزے کا اجر ہی ضائع ہوجاتا ہے ۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 539 ) صحیح الترغیب ( 1 / 453 ) ۔
نیکیوں کوختم کرنے اوربرائيوں کو کھینچنے والی اشیاء میں فلمیں اورڈراموں اورکھیل کود میں وقت اوراسی طرح فارغ بیٹھے رہنے اوربرے اخلاق اوروقت ضائع کرنے والوں کے ساتھ راستوں اورگلی محلہ میں آوارہ گھومنا ، اورگاڑیوں سے کھیلنا ، راستوں اور فٹ پاتھوں پر بھیڑ کرنا ، یہ سب اشیاء نیکیوں کو ختم کرتی اوربرائي پیدا کرتی ہيں ۔
حتی کہ یہ ماہ مبارک جو تھجد اورقیام اللیل کا مہینہ تھا اکثر لوگ تو سارا دن سو کرگزار دیتے ہیں تا کہ بھوک وپیاس کا احساس نہ ہوسکے ، جس کی بنا پر باجماعت نمازيں ضائع ہوتی ہیں اوربعض اوقات تو نماز کے وقت میں بھی ادائيگي نہیں ہوتی ، پھر رات کو کھیل کود اورشھوات میں پڑے رہتےہیں ، اوربعض لوگ تورمضان کے آنے پر پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان کی لذتیں جاتی رہیں گی اورکچھ لوگ رمضان المبارک میں کفار ممالک میں چلے جاتے ہيں تا کہ تا کہ وہاں پر وہ کچھ کرسکیں جواپنے ملک میں کرنا مشکل ہے ! ۔
حتی کہ اب تو مساجد بھی منکرات سے خالی نہیں رہتیں بلکہ عورتیں نماز پڑھنے کے بہانے سے عطروخوشبو اورطرح طرح کی پرفیومز اسعتمال کرلے بے پردہ ہوکرنکلتی ہیں جس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے ، حتی کہ بیت اللہ بھی ان آفات سے خالی نظر نہیں آتا ۔
اورکچھ لوگوں نے تو رمضان المبارک مانگنے اورسوال کرنے کا سیزن بنا رکھا ہے حالانکہ وہ محتاج نہيں اور اس سے سوال کے لیے دست دراز کرنا صحیح نہيں ، اوربعض لوگ تو اس ماہ مبارک میں آتشبازي اورپٹاخے وغیرہ کے کھیل میں مشغول ہوتے ہيں ، اورکچھ منچلے تو بازاروں اورشاپنگ سینٹروں میں گھومتے اورتالیاں و سیٹیاں بجاتےنظر آتے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اگر روزہ دار سے کوئي شخص لڑائي جھگڑا کرے یا اسے گالی گلوچ ہو تو اسے یہ کہنا چاہیے میرا روزہ ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 ) ۔
اس حدیث میں ایک نصیحت تو خود روزہ دارکوہے اوردوسری اس سے لڑنے والے شخص کو کی گئي ہے ، لیکن اس دور میں اگربہت سے روزہ داروں کے اخلاق کو دیکھا جائے تو اس اخلاق فاضلہ کے خلاف ہی ان کے اخلاق ہوتے ہیں لھذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ۔
٭ روزہ میں علم ومال کی دولت ، اوربدن وعزت وشرف اوراخلاق کی دولت کو سخاوت کرکے لٹایا جاتا ہے ۔
صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے يادہ خیروبھلائی کی جود وسخا کرنے والے تھے ، اوررمضان المبارک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبریل امین ملتے تو آپ اوربھی زيادہ جود وسخا کرتے جبریل امین ہر رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز آندھی سے بھی زيادہ خیروبھلائي کی جود وسخا کرنے والے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6 ) ۔
روزہ رکھنا اور دوسرے کو کھلانا اگرکسی میں یہ دونوں چیزيں جمع ہوں تویہ جنت میں داخل ہونے کا ایک سبب ہے ، جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے فرمان میں بیان کیا ہے :
( یقینا جنت میں ایسے کمرے ہیں ان کا اندرونی حصہ باہر سے ہی نظرآتا ہے ، اوراندر سے اس کا باہر والاحصہ نظر آتا ہے ، اللہ تعالی نے یہ کمرے کھانا کھلانے ، اوربات چيت میں نرم رویہ اختیاروالے ، روزہ دار، اور رات کوجب لوگو سوئے ہوں تو نماز پڑھنے والے کے لیےتیار کیے ہیں ) مسند احمد ( 5 / 343 ) صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ( 2137 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے کسی روزہ دارکوافطاری کروائی اسے بھی روزہ دارجیسا اجروثواب حاصل ہوگا ، اورروزہ دارکے اجروثواب میں کچھ کمی نہیں ہوگي ) سنن ترمذی ( 3 / 171 ) صحیح الترغیب ( 1 / 451 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
افطاری کروانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا جائے ۔ دیکھیں الاختیارات الفقھيۃ صفحہ نمبر ( 109 ) ۔
بہت سے سلف صالحین رحمہ اللہ تعالی نےفقراء کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی افطاری فقراء ومساکین کو دے دی ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ، مالک بن دینا ، احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہيں ، بلکہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما تو یتیموں اورمسکینوں کے بغیرافطاری ہی نہيں کرتے تھے ۔
newman- Posts : 50
Reputation : 0
Join date : 2011-07-07
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum